مومنین کی امداد،ان کی مشکلات کو برطرف کرنے ،ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے ،مومنین کی مدد اور ان کے کام آنا اسلامی اعتبار سے مومن کے دل کو خوش کرنے کا...
مومنین کی امداد،ان کی مشکلات کو برطرف کرنے ،ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے ،مومنین کی مدد اور ان کے کام آنا اسلامی اعتبار سے مومن کے دل کو خوش کرنے کا ذریعہ ہے لہٰذا ہر مومن کو کسی نہ کسی طرح اپنے برادر مومن کی خوشیوں کا لحاظ کرتے رہنا چاہیے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا:
خداوند عالم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"مومن کو خوش کرنے کی فکر میں رہنا۔"
پھر سوال کیا گیا کہ ہے مسلمان کو کس طرح خوش کیا جائے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"وہ بھوکا ہو تو شکم سیر کرکے نیز اس کے غموں کو دور کرکے اور اس کے قرض کی ادائیگی کے ذریعے۔"
مولا علی علیہ السلام علیکم جناب کمیل رحمتہ اللہ نے فرمایا:
"اے کمیل!اپنے گھر والوں کو حکم دو کہ اچھی خصلتوں کو تلاش کرنے کے لیے دن میں نکلیں اور سونے والوں کی حاجت روائی کے لئے رات میں قیام کریں قسم ہے اس ذات کی جو ہر آواز کی سننے والی ہے کہ کوئی شخص کسی دل میں خوشی داخل نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ پروردگار اس کے لئے اس خوشی میں لطف پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے بعد اگر اس پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو وہ لطف اس کی طرف نشیب میں بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھتا ہے اور اس مصیبت کو یوں ہنکا دیتا ہے جس طرح پراۓ اونٹ ہنکاۓ جاتے ہیں۔"
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"جس نے کسی مومن کو مسرور کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا ہے اس نے خدا کو راضی اور خوشنود کیا۔"
مندرجہ بالا احادیث کو پڑھنے کے بعد بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک "مومن کو خوش کرنے" کی کتنی زیادہ اہمیت ہے اور یہ خدا کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب ترین عمل میں سے ہیں اور اتنی عظمت اور اہمیت کے باوجود اتنا آسان کام بھی ہے کہ ہر شخص ،ہر حالت میں مومن کو خوش کر سکتا ہے کیونکہ اس کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے بلکہ اس کے بے شمار راستے پائے جاتے ہیں لہٰذا اگر کسی کے پاس مال ودولت نہیں ہے تو وہ اپنی غربت کا بہانہ بنا کر مومن کو خوش نہ کر پانے کا عذر پیش نہ کرے کیونکہ معصومین علیہ السلام نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ مسکرا کر یا مومن کی اوپر سے کوئی تنکا یا دھاگہ ہٹا کر یا ایک کھجور پیش کرکے بھی اسے خوش کیا جاسکتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک اچھی بات یا محبت سے لبریز جملہ بھی مومن کے دل کو مسرور کر سکتا ہے۔
مومن کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ایک قدم اٹھانا بھی ادخال سرور کا مصداق ہے اور جو ایسا کرے گا خداوندعالم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک اس کا اجر و ثواب محفوظ رہے گا۔
مومنین کے درمیان مصالحت کرانا:
ہر معاشرے اور سماج کو نفسیاتی بیماریوں سے نجات دینے کے لیے تمام مومنین کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے مومن بھائیوں کے اختلافات دور کرائیں اور ان کے دلوں سے ایک دوسرے کی کدورتوں ختم کرا دیں اس بارے میں کسی گفتگو سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام میں ایک دوسرے سے ناراض رہنا اور اپسی روابط اور تعلقات کو توڑ دینا بہت ہی بری چیز ہے اور یہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ دو مومن بھائی معمولی بات پر ایک دوسرے سے ناراض ہو کر جھگڑا کرنے لگیں اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے کدورت اور آپسی رنجش پیدا ہو جائے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"اگر دو مسلمان ایک دوسرے سے تعلقات توڑ لیں اور اسی طرح ایک دوسرے سے الگ رہتے ہوئے تین دن گزر جائیں اور وہ مصالحت نہ کریں تو دونوں اسلام سے خارج ہیں اور اگر ان کے درمیان دوستی نہ ہو تو ان میں جو کوئی دوسرے سے پہلے بولنا شروع کرے گا روز قیامت وہی جنت میں پہلے جائے گا۔"
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"کبھی بھی دو مومنین ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے مگر یہ کہ ان میں سے ایک (جو خطاوار ہے) بیزاری اور لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور بسا اوقات دونوں ہی لعنت کے مستحق ہوتے ہیں۔"
روایات میں مومنین کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور عداوت کے بیج بونے کو شیطانی عمل کہا گیا اور مومنین کو اس بات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ شیطان کے وسوسوں میں نہ پڑیں اور اس کے فریب میں نہ آئیں۔
قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے:
"شیطان تمہارے درمیان بغض و عداوت پیدا کرنا چاہتا ہے۔"
ان روایات کے مطابق مومنین کے درمیان میل محبت اور بھائی چارہ ہی اصل ایمان ہے اور ایک دوسرے سے اختلاف اور جھگڑا کے ذریعے قطع تعلق شیطانی عمل ہیں۔لہذا جس قدر ممکن ہو اس طرح بات سے دور ہیں لڑائی جھگڑا رہا نہ کریں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
(1)"مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان صلح وصفائی قائم رکھو۔"
(2)"لہذا تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس میں اصلاح کرو۔"
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"مصالحت کرانے والا جھوٹا نہیں ہوتا ہے۔"
آپ علیہ السلام نے اپنے ایک چاہنے والے سے یہ جملہ اس وقت کہاں تھا جب اسے اپنے دو شیعوں کے درمیان صلح کرانے بھیجا تھا اور یہ نصیحت کی تھی کہ ان دونوں سے میری طرف سے اس طرح کہنا تو انہوں نے کہا میں آپ کا پیغام تو ان تک پہنچا ہی دوں گا اور کچھ اپنی طرف سے اضافہ کروں گا یہ جھوٹ تو نہیں ہوگا؟تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"ہاں! تمہارا یہ کام اصلاح ہے نہ کہ جھوٹ اور صلح کرانے والا جھوٹا نہیں ہوتا ہے۔"
خلاصہ:
مومنین کو خوش کرنا بھی اسلامی اخلاقیات کا حصہ ہے جس کے مختلف طریقے ہیں ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ مومنین کے دلوں سے ایک دوسرے کی کدورت ختم کرکے ان کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا کیا جائے اسلام میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کا بیحد ثواب بیان کیا گیا ہے اور معصومین علیہ السلام نے بھی اس کی خصوصی تاکید فرمائی ہے۔
تبصرے