جب ابوبکر کی بیعت کرلی گئی اور مہاجرین و انصار پر ان کی حکومت و امارات ہو گئی تو اپنی طرف سے کسی کو سرزمین "فدک" بھیجا
حماد ابن عثمان نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ جب ابوبکر کی بیعت کرلی گئی اور مہاجرین و انصار پر ان کی حکومت و امارات ہو گئی تو اپنی طرف سے کسی کو سرزمین "فدک" بھیجا کہ وہ اسے حضرت زہرا علیہ السلام کے نمائندہ کو خارج کر دے۔
حضرت فاطمہ الزہرا علیہ السلام نے آکر ابوبکر سے فرمایا:
میرے بابا کی میراث سے مجھے کیوں محروم کیا اور باغ فدک سے میرے نمائندہ کو کیوں نکالا؟جب کہ میرے بابا نے حکم خدا سے یہ زمین مجھے بخشی تھی۔
ابوبکر نے کہا گواہی پیش کیجئے؟
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ نے گواہی کی خاطر ام ایمن کو حاضر کیا،ام ایمن نے کہا! گواہی دینے سے قبل میں تم سے پوچھتی ہوں کیا تم مانتی ہو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے بارے میں فرمایا ہے ،ام ایمن جنت کی عورتوں میں سے ہے،ابوبکر نے کہا! ہاں، پھر امی ایمن نے کہا جب آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باغ فدک حضرت زہرا سلام اللہ کو عطا فرمایا اور اسے ان سے مخصوص کر دیا۔
حضرت علی علیہ السلام بھی حاضر ہوئے اور جیسی گواہی ام ایمن نے دی تھی،ویسے ہی گواہ ہے آپ علیہ السلام نے بھی دی۔اسی وقت عمر بن خطاب آگئے،بی بی فاطمتہ الزہرا علیہ السلام کے دست مبارک میں تحریر دے کر مضمون کے بارے میں استفسار کیا،ابوبکر نے سارا ماجرا اور حق کا مضمون بیان کیا۔
عمر بن خطاب نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ کے ہاتھ سے خط لے کر پھاڑ دیا۔
حضرت فاطمہ علیہ السلام محزون و مغموم وہاں سے نکل آئیں۔پھر حضرت علی علیہ السلام نے مسجد میں آکر ابوبکر اور کچھ مہاجرین و انصار کے سامنے فرمایا! تم نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیے حق کو فاطمہ علیہ السلام سے کیوں لے لیا اور ان کے مخصوص حق و ملکیت سے انہیں کیوں محروم کر دیا؟
ابوبکر نے کہا یہ زمین تمام مسلمانوں کا مال غنیمت ہے فاطمہ علیہ سلام گواہی پیش کرسکیں اور ثبوت کردیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں نے انہیں دیا تھا تو ان کا مالک ہونا ثابت ہوگا ورنہ ان کے لیے مخصوص نہیں ہوگا۔
علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا:
اگر کسی مسلمان کے ہاتھ میں کوئی مال ہو ،میں دعویٰ کروں کہ یہ میری ملکیت ہے تو دلیل تم مجھ سے مانگو گے یا اس سے جو کہ اس مال میں متصرف ہے؟
ابوبکر نے کہا یقیناً آپ سے گواہی کا مطالبہ کروں گا۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: پھر فاطمہ علیہ اسلام سے گواہی اور دلیل کا مطالبہ کیوں کر رہے ہو؟ جبکہ باغ فداک حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آج تک فاطمہ علیہ السلام کے تصرف و ملکیت میں ہے اور دوسرے مسلمان اس کے مدعی ہیں ان سے دلیل کیوں نہیں مانگتے؟ ابوبکر خاموش ہوگئے، جواب سے عاجز رہے۔
عمر نے کہا اے علی علیہ السلام! اپنی باتوں کو ختم کرو، ہم تم سے مباحثہ و مناظرہ کی قدرت نہیں رکھتے،آپ کو دلیل قائم کر کے اپنی ملکیت ثابت کرنا چاہیے ورنہ اس زمین میں آپ کا کوئی حق نہیں ہوگا؟
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
اے ابوبکر! میں تم سے پوچھتا ہوں،آیت تطہیر کس کی نازل ہوئی ہے؟ابوبکر نے کہا! خاندان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ علیہ السلام کی شان میں۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
اگر کچھ لوگ دختر رسول فاطمہ الزھرا سلام اللہ کے رجس و فحش کے بارے میں گواہی دیں تو کیا کرو گے؟ ابوبکر نے کہا اس وقت فاطمہ علیہ السلام پر حد جاری کروں گا۔علی ابن ابی طالب نے فرمایا: اس صورت میں تم نے حکم خدا اور دستور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف عمل کیا ہوگا اور اگر تم نے ایسا کر دیا تو کافر ہو جاؤ گے۔
ابوبکر نے کہا کہ کیسے؟ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا:
اولاً خداوند عالم نے طہارت فاطمۃ الزہراء کی اسی آیت میں گواہی دی ہے اور اس کو ہر طرح کی رجس و برائی سے پاک کیا ہے اور تم لوگوں کی گواہی کو خدا کی گواہی پر مقدم کر رہے ہو۔
ثانیاً: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: دلیل و گواہی مدعی کی ذمہ داری ہے، مدعا علیہ صرف قسم کھاۓ گا۔تم اس حکم سے منحرف ہو رہے ہو اور باغ جو فدک جو فاطمہ علیہ السلام کے تصرف میں ہے اور دوسرے لوگ اس پر دعویٰ کر رہے ہیں پھر تم فاطمہ علیہ السلام سے ہی دلیل و شرائط کا مطالبہ کر رہے ہو یہ حکم خدا اور قانون کے خلاف کام کر رہے ہو۔مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے لوگ آ پ علیہ السلام کے کلمات سے بہت متاثر ومتعجب ہوئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے با خدا کی قسم! علی ابن ابی طالب علیہ السلام صحیح و درست کہہ رہے ہیں،یہ کہہ کر آپ اپنے گھر واپس چلے گئے۔اس کے بعد جناب فاطمہ زہرا علیہ السلام مسجد میں داخل ہوئیں اور اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کا طواف کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھتی رہیں تھیں۔
ترجمہ: آپ ہمارے درمیان سے چلے گئے ہمارا حال اس زمین کی مانند ہو گیا ہے جس پر مفید بارش نہیں برستی،آپ کی امت نے اختلاف کیا ،آپ ان کے اموار کے گواہ رہیے گا آپ کے بعد جھوٹی اور اختلافی حدیثیں بیان کی گئیں، اگر آپ ہوتے تو لوگوں کے امور اتنے سخت نہ ہوتے کچھ لوگ تندنگاہی سے ہمارے مقام و منزلت کو ہلکا سمجھ رہے ہیں، آپ کے جدا ہوتے ہی ہم پر ظلم و ستم ہونے لگے۔جب تک ہم زندہ ہیں آپ پر گریہ کرتے رہیں گے اور جب تک ہماری آنکھوں میں آنسو ہیں روتے رہیں گی۔
تبصرے