اللہ کریم غفور الرحیم کی بے پناہ نوازشات اولاد کی نعمت کا کوئی نعمل بدل اس کائنات میں نہیں ہے۔اللہ پاک کلام اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جسے چاہیں ...
اللہ کریم غفور الرحیم کی بے پناہ نوازشات اولاد کی نعمت کا کوئی نعمل بدل اس کائنات میں نہیں ہے۔اللہ پاک کلام اللہ فرماتے ہیں کہ ہم جسے چاہیں بیٹے دیں اور جسے چاہیں ہے بیٹیاں دیں اور جسے چاہیں کچھ بھی نہ دیں۔اولاد کی کمی کو کسی بھی چیز سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔اس کا درد تو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو اس نعمت باری تعالیٰ سے محروم ہیں۔دعا کیجئے اللہ کریم رؤف و رحیم ان پر بھی رحمتیں فرمائیں۔(آ مین)
بچے ہمارے زندگی کے شگفتہ پھول اور ہماری امیدوں کا محور ہوتے ہیں مگر دیکھا یہ گیا کہ بیٹے کی پیدائش پر تو بےحد خوشیاں منائی جاتی ہیں۔جب کہ بیٹی کی پیدائش ماں کے لیے ایک طاغوت بن جاتی ہے۔انہی حالات کی وجہ سے بعض اوقات گھر بھی پڑ جاتے ہیں۔
ایسا بالکل بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بطور مسلمان ہم سب کا یہی عقیدہ ہے۔سبھی امور اللہ کریم کے قبضہ قدرت میں ہیں۔
احادیث مبارکہ میں بڑی وضحات سے بیان ہوا ہے کہ اچھی طرح بیٹیوں کی پرورش کرکے شادی کرنے والے والدین پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔اس لئے میں لڑکیوں کی پیدائش پر غم و غصہ قصے کا اظہار محض جاہلیت ہی کہی جا سکتی ہے۔جب بچہ پیدا ہو تو اس کو پاک صاف کرکے اس کے کانوں میں سب سے پہلے اذان کی آواز پہنچانے کا حکم ہے۔اس کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ دائیں کان میں اذان پڑھی جائیں اور بائیں کان میں تکبیر یعنی اقامت اس فرض کے بعد صدق دل سے دعا کریں کہ
"اے اللہ پاک میں اس کے اور اس کی اولاد کے لیے شیطان مردود سے آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں."
ایک مرتبہ قل شریف پڑھ کر دین پر ثابت قدم رہنے کی دعا کریں اور جو بھی دعا آپ کو یاد ہو اس نومولود کے لیے پڑھیں۔اللہ پاک دعاؤں سے بہت خوش ہوتے ہیں۔
دعاؤں کے بارے میں بہت سی احادیث موجود ہیں۔زندگی کی پریشانیوں میں اولاد کے لئے والدین کی دعاؤں کا بڑا عمل دخل ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان عالیشان ہے کہ اولاد کے معاملے میں والدین کی دعا کو اللہ کریم کی بارگاہ میں پذیرائی بخشی جاتی ہے۔چنانچہ ارشاد نبوی میں ہے کہ اولاد کو سخت غصے میں بھی بد دعا نہیں دینی چاہیے۔
اللہ کریم سے جو چیز والدین بہتر مانگ سکتے ہیں یا دعا کر سکتے ہیں وہ ہے ان کے لیے ہدایت تقوی اور نماز کا عادی ہونا۔آپ کو یقینی طور پر علم ہوگا کہ محض والدین کی بچوں کے لئے دعا نہیں مانگتے بلکہ سبھی مسلمان بھی اپنے والدین کے لئے ہر نماز کی دعا مانگتے ہیں کہ
"اے میرے رب،مجھے نماز قائم کرنے والا بنا۔اور میری اولاد کو بھی،اے میرے رب ہماری دعائیں قبول فرما۔اے میرے رب میری مغفرت فرما اور میرے والدین کی بھی اور جملہ مومنین کی بھی، روز جزا کے دن۔ (سورۃابراہیم:40)
اللہ کریم غفور الرحیم سے دعاؤں میں اپنے اور اپنے بچوں کے لیے نیکی اور بھلائی ہی مانگنی چاہیے تاکہ اللہ پاک خوش ہو کر رحمت فرمائیں۔
گھٹی:
یہ وہ چیز ہے جو کہ بعد ازا اذان بچہ کی منہ میں ڈالی جاتی ہے۔بہت سی احادیث میں آ یا ہے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نومولود بچہ کو اپنے دہن مبارک میں کھجور چبا کر بچہ کے منہ میں ڈالتے تھے۔اس قدر خوش قسمت بچے ہوں گے۔آج کل ہمارے ہاں نومولود بچہ کو شہد چٹوایا جاتا ہے۔جس سے بچہ کے آنتوں،اور معدہ کی صفائی ستھرائی بھی ہو جاتی ہے۔
بچہ کی پہلی غذا:
بچہ اس دنیا میں آنے کے بعد لازمی طور پر اپنی خوراک چاہتا ہے اور اللہ کریم نے ایسا نظام کر رکھا ہے کہ بچے کی پیدائش کے فوری بعد ہی ماں کی چھاتیاں دودھ سے بھر جاتی ہیں۔یہی وہ طاقت اور ٹانک ہے جو بچے کو بڑھاپے تک سنبھالے رکھتا ہے۔اللہ پاک نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے کہ "اور مائیں اپنے بچوں کو دو سال تک دودھ پلائیں"۔
اس بارے میں مزید کوئی حکم یہ بھی ہے کہ اگر اللہ نہ کریں میاں بیوی میں علیحدگی کی نوبت آن پہنچے تو جب تک بچہ ماں کا دودھ پیتا رہے اس وقت تک تمام اخراجات شوہر برداشت کرے گا۔ بچہ کو ہمیشہ پاک صاف ہو کر اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر دودھ پلانا چاہیے۔
عقیقہ:
اللہ کریم کے محبوب پاک سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ"بلا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر صدقہ اور عقیقہ صدقہ ہے۔"
آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا ہے کہ بچے کی پیدائش کے ساتویں روز بچہ کے سر کے بال منڈوا دو ارو عقیقہ کر دو۔کیونکہ ہر بچہ کے رہن سہن میں ہوتا ہے۔ساتویں روز اس کا نام بھی رکھ دو۔
عقیقہ کے بارے میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ"اگر تم میں سے کوئی اپنے بچوں کا عقیقہ کرنا چاہے۔تو لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا بکریاں اور اور لڑکی کی طرف سے سے ایک بکرا یا بکری۔
بچوں کا نام تجویز کرنا:
مسلمان بچوں کے نام کو بامعنی ہونا چاہیے آئے اور اگر ان کو صالحین،صحابہ کرام نام اور انبیاء کرام کے ناموں سے منسوب کر دیا جائے تو نہایت ہی مناسب بات ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اگر کوئی نام کسی کا پسند نہیں آتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ناموں کا انتخاب کرنے سے منع فرمایا ہے جن سے شرک کا اظہار ہوتا ہو مثلاً اللہ تعالی کی بجائے کسی اور کے نام کے ساتھ عبد لکھ دیا جائے یا پکارا جائے۔اس کے علاوہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذاتی غرور کو ظاہر کرنے والے ناموں کو بھی انتخاب کرنے سے منع فرمایا۔اسلامی ناموں کو بگاڑنا بھی نہیں چاہیے۔بلکہ اپنے اسلامی ناموں پر تو سب کو فخر ہونا چاہیے۔
تبصرے